Monday 14 September 2015

ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے

ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
چراغِ جاں، سرِ مقتل جلانا پڑتا ہے
اٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رتجگوں کا خمار
پھر اس خمار سے خود کو بچانا پڑتا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑتی ہے
کسی کا خواب کسی کو دکھانا پڑتا ہے
کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اپنے گھر کا پتا
کسی کو شہر کا نقشہ دکھانا پڑتا ہے
بگڑ رہا ہے کچھ ایسا توازنِ ہستی
کسی کا بوجھ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے
کوئی کسی کے کہے سے کبھی رکا ہی نہیں
وہاں رکا ہے، جہاں آب و دانہ پڑ تا ہے
وہ ایک پَل کی مسافت پہ تھا مگر مجھ سے
نہ جانے کس نے کہا تھا زمانہ پڑتا ہے
عجیب طرح سے اس نے بنائی ہے دنیا
کہیں کہیں تو یہاں دل لگانا پڑتا ہے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment