Monday 14 September 2015

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں
پھر اس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ تُو دربدر نہ ہو، ورنہ
تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں
کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس
کھلی "فضا" میں تجھے "گنگنانے" لگتے ہیں
جو تُو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے
ہم اپنے آپ سے خود ہی نبھانے لگتے ہیں
عجیب کھیل ہے جلتے ہیں اپنی آگ میں ہم
پھر اپنی راکھ بھی خود ہی اڑانے لگتے ہیں
یہ آنے والے زمانے مِرے سہی، لیکن
گزشتہ عمر کے سائے ڈرانے لگتے ہیں
نگار خانۂ ہستی میں کیسا پائے ثبات
کہیں کہیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment