Monday 7 September 2015

کب کہاں کیا مرے دلدار اٹھا لائیں گے

کب کہاں کیا مرے دلدار اٹھا لائیں گے
وصل میں بھی دل بیزار اٹھا لائیں گے
چاہئے کیا تمہیں تحفے میں، بتا دو، ورنہ
ہم تو بازار کا بازار اٹھا لائیں گے
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بُلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے
ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بارِ وجود
تم پکارو گے تو ہر بار اٹھا لائیں گے
گر کسی جشنِ محبت میں چلے بھی جائیں
چُن کے آنسو ترے غمخوار اٹھا لائیں گے
کون سا پھول سجے گا ترے جُوڑے میں بھَلا
اس شش و پنج میں گلزار اٹھا لائیں گے

عطا تراب

No comments:

Post a Comment