کب کہاں کیا مرے دلدار اٹھا لائیں گے
وصل میں بھی دل بیزار اٹھا لائیں گے
چاہئے کیا تمہیں تحفے میں، بتا دو، ورنہ
ہم تو بازار کا بازار اٹھا لائیں گے
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بُلا
ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بارِ وجود
تم پکارو گے تو ہر بار اٹھا لائیں گے
گر کسی جشنِ محبت میں چلے بھی جائیں
چُن کے آنسو ترے غمخوار اٹھا لائیں گے
کون سا پھول سجے گا ترے جُوڑے میں بھَلا
اس شش و پنج میں گلزار اٹھا لائیں گے
عطا تراب
No comments:
Post a Comment