Tuesday, 8 September 2015

ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے

ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے

ہر صبح یہ خیال اجالے کہاں گئے

یا ہے شراب پر یا دواؤں پہ انحصار

جو نیند بخش دیں وہ نوالے کہاں گئے

وہ التجائیں میری تہجد کی کیا ہوئیں

تھی عرش تک رسائی وہ نالے کہاں گئے

منزل پہ آپ دھوم مچانے لگے جناب

مجھ کو یہ فکر، پاؤں کے چھالے کہاں گئے

دستِ قلم میں آج بھی اخلاق سوزیاں

کردار ساز تھے جو رسالے، کہاں گئے

گلشن کے بِیچ کھلنے لگے ہیں کنول عزیزؔ

کیچڑ میں ڈھونڈتا ہوں کہ لالے کہاں گئے


عزیز بلگامی 

No comments:

Post a Comment