ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے
ہر صبح یہ خیال اجالے کہاں گئے
یا ہے شراب پر یا دواؤں پہ انحصار
جو نیند بخش دیں وہ نوالے کہاں گئے
وہ التجائیں میری تہجد کی کیا ہوئیں
تھی عرش تک رسائی وہ نالے کہاں گئے
منزل پہ آپ دھوم مچانے لگے جناب
مجھ کو یہ فکر، پاؤں کے چھالے کہاں گئے
دستِ قلم میں آج بھی اخلاق سوزیاں
کردار ساز تھے جو رسالے، کہاں گئے
گلشن کے بِیچ کھلنے لگے ہیں کنول عزیزؔ
کیچڑ میں ڈھونڈتا ہوں کہ لالے کہاں گئے
عزیز بلگامی
No comments:
Post a Comment