لفظ کی دنیا میں شائستہ ہنر میرا بھی ہے
اس خرابے میں تماشا سربسر میرا بھی ہے
میں بھی لٹ جاؤں گا شاید، آپ جیسے لٹ گئے
راہ میں اک راہبر شوریدہ سر میرا بھی ہے
مجھ کو معیارِ وفا کی اس لیے ہے جستجو
قافلہ شہر وفا سے دربدر میرا بھی ہے
سائباں کی چھاؤں ہر سر کو میسر آ گئی
“آسماں اک چاہیے مجھ کو کہ سر میرا بھی ہے”
آندھیو! مجھ کو بھی دے دو میزبانی کا شرف
دشت میں ایک ریت کا چھوٹا سا گھر میرا بھی ہے
راز کے افشاء میں دونوں ہی ہوئے شامل عزیزؔ
تیرا قاصد ہی نہیں ہے، نامہ بر میرا بھی ہے
عزیز بلگامی
No comments:
Post a Comment