اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر
سِیپیاں خالی نہ رہ جائیں، گُہر پیدا کر
التجائیں تِری جا کر کہاں رک جاتی ہیں
اب کے گردُوں میں کوئی راہگزر پیدا کر
خواب لگتی ہیں دعاؤں میں اثر کی باتیں
ہو سکے تجھ سے تو شکوؤں میں اثر پیدا کر
ہم پہ احسان نہ کرنا، تِرا احساں ہو گا
اپنی آنکھوں میں نہ مُحسن کی نظر پیدا کر
یہ چھلکتے تو ہیں، رُخسار پہ ڈھلتے ہی نہیں
آنسوؤں میں بھی ذرا عزمِ سفر پیدا کر
کٹ تو سکتا ہو جھُکانے سے نہ جھکتا ہو کبھی
سر کوئی ایسا بھی اک شوریدہ سر پیدا کر
ذہن تھا سوچ میں، جذبات ہوں پیدا کیسے
دفعتاً آئی صدا، دل میں اتر، پیدا کر
اتنے تاریک نہ تھے دن کے اجالے اے عزیزؔ
میری خواہش ہے کہ تُو دن میں سحر پیدا کر
عزیز بلگامی
No comments:
Post a Comment