Tuesday 8 September 2015

ہے کون ایسا شہر میں فتنوں کو جو دبا سکے

 ہے کون ایسا شہر میں فتنوں کو جو دبا سکے

انسانیت کو ظلم سے اس دور میں بچا سکے

اب شہرِ شعلہ پوش میں، ہے آبجو کی جستجو

بھڑکی ہے جو قلوب میں، اس آگ کو بجھا سکے

گو کہ فلک شگاف تھے، ہم بے کسوں کے قہقہے

چہرہ تھا دل کا آئینہ، غم کو نہ ہم چھپا سکے

اپنے ہی دم قدم سے ہے، نغمہ و نطق کا بھرم

“کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے”

رکھ لیجئے گا شوق سے، تم ساری صبحیں اپنے پاس

ایسی سحر ملے ہمیں جو بارِ شب اٹھا سکے

وہ عیب پوش تھا مگر، ہم عیب بیں و عیب چیں

آتا نہیں نظر کوئی، عیبوں کو جو چھپا سکے

کتنا عزیز ہے ہمیں نغمہ عزیز کا، عزیزؔ

ایک ایسا سوز اس میں ہے جو سارے غم بھلا سکے


عزیز بلگامی

No comments:

Post a Comment