Wednesday 9 September 2015

عالم ہے بے خودی کا مے کی دکان پر ہیں

عالم ہے بیخودی کا مے کی دکان پر ہیں
ساقی پر ہیں نگاہیں، ہوش آسمان پر ہیں
دل اپنی ضد پر قائم، وہ اپنی آن پر ہیں
جتنی مصیبتیں ہیں سب میری جان پر ہیں
دنیا بدل گئی ہے وہ ہیں ہمیں کہ اب تک
اپنے مقام پر ہیں، اپنے مکان پر ہیں
میرا وہ دل نہیں ہے جو ہمنشیں لب ہو
یہ آپ ہیں کہ ہر دم اپنی زبان پر ہیں
پامال ہیں مگر ہیں ثابت قدم وفا میں
ہم مثلِ سنگِ در کے اس آستان پر ہیں
اب تک ہے یاد ہم کو اپنی بلند نامی
ابھی مِٹے ہوئے ہم مِٹتے نشان پر ہیں
ہر در کو ہم نے پایا ہے جلوہ گاہ تیرا
نقشِ جبیں ہمارے، ہر آستاں پر ہیں
یہ صورتیں تمہاری، یہ ناز، یہ ادائیں
قربان اے بتو! ہم خالق کی شان پر ہیں
انداز وہ نظر کے جو آرزو کو روکیں
باتیں جو کر دیں ساکت ان کی زبان پر ہیں
شکر خدا کا، ان کے قدموں پہ سر ہے اپنا
اس وقت کچھ نہ پوچھو، ہم آسمان پر ہیں
یہ قطر ہائے شبنم ہیں زینتِ گُلِ تر
یا موتیوں کی لڑیاں اس گُل کے کان پر ہیں
ہر ذرہ کوئے عشقِ احمدؐ کا کہہ رہا ہے
جو اس زمین پر ہیں، وہ آسمان پر ہیں
اب تک سمجھ رہے ہیں دل میں مجھے مسلماں
قائم ہنوز یہ بُت اپنے گمان پر ہیں
اسلوبِ نظمِ اکبرؔ فطرت سے ہیں قریب تر
الفاظ ہیں محل پر، معنی مکان پر ہیں
اک نقش مِٹ گیا ہے روتے نشان پر ہیں
دل میں ہیں داغِ حسرت قِصّے زبان پر ہیں
خلقت میں جلوۂ حق پاتے ہیں اہلِ عرفاں
آنکھیں زمین پر ہیں، دل آسمان پر ہیں
ہے دیدنی یہ گرمئ بازار، کافری کی
گاہک بنا ہے تقویٰ، بُت بھی دکان پر ہیں

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment