پیراہنِ سِیہ نہ عزا خانہ شرط ہے
غم کے لیے فقط ترا یاد آنا شرط ہے
محفل وہیں جمے گی جہاں بیٹھ جائیں یار
کب ہاؤ ہُو کے واسطے میخانہ شرط ہے
آپ اور میں تو لازم و ملزوم ہیں، جناب
صاحب! گُلِ مراد کو پانے کے واسطے
پہلے گُلِ مراد سا ہو جانا شرط ہے
اس پارسا کے دل میں سمانے کے واسطے
کوئی نہ کوئی لغزشِ مستانہ شرط ہے
تجھ سے نہیں ملا تھا تو مری یہ رائے تھی
پریوں کے دیکھنے کو پری خانہ شرط ہے
آبادیوں میں ٹھیک سے جمتی نہیں ہے بزم
رونق کے واسطے کوئی ویرانہ شرط ہے
ثروت جی! خود کشی کوئی مردانگی نہیں
مرنا ہے یار پر تو جیے جانا شرط ہے
دنیا کا رنگ ڈھنگ سمجھنا ہے تو حضور
دنیا کی چال ڈھال کو ٹھکرانا شرط ہے
مت بھولیئے کہ حاضرئ کوئے یار کو
دل کی نیاز، آنکھ کا نذرانہ شرط ہے
اک کم نظر کو بھی بہم آ سکتی ہے نظر
آنکھوں میں شوقِ جلوۂ جانانہ شرط ہے
کھل جائے گا سرور کا دروازہ خود بخود
تھوڑا سا رقص، تھوڑا سا لہرانا شرط ہے
انسان ہے، وہ سنگ نہیں، مان جائے گا
ہاں، روز التجاؤں کو دھرانا شرط ہے
کہتے ہو تب ملوں گا، اگر دور سے ملو
فارسؔ کی جاں! یہ بڑی بچگانہ شرط ہے
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment