Wednesday 9 September 2015

بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی

بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
صدقہ اپنا ساقیا! یک جامِ صہبا، اور بھی
ایک تو میں آپ ناصح ہُوں پریشاں، خستہ جاں
دل دُکھا دیتی ہے تیری پندِ بے جا اور بھی
داستانِ شوقِ دل، ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے، میں کہتا اور بھی
کچھ تو پہلے سے دلِ بیتاب تھا وحشی مزاج
بے تِرے دن رات گھبراتا ہے تنہا اور بھی
دیکھتے ہی دیکھتے تسلیمؔ وہ چھپنے لگے
بڑھ گیا بے پردگی میں مجھ سے پردہ اور بھی 

تسلیم لکھنوی

No comments:

Post a Comment