Friday, 4 September 2015

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل میرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ مِرے نہ آنکھیں مِری نہ چہرہ مِرا
یہ کس کا عکس مِرے آئینے میں آیا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
ہے واقعہ ہدفِ سیلِ آب تھا کوئی اور
مِرا مکان تو بس راستے میں آیا تھا
وہ رازِ وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر
یہ خوابِ ہجر تھا جو جاگتے میں آیا ہے
جمالؔ! دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا تھا

جمال احسانی

No comments:

Post a Comment