Wednesday 9 September 2015

کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم

کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم
اب تک مِرے سینے سے نکلتی ہے ہوا گرم
اک روز تو آ کر مِری آغوش میں بیٹھو
ٹھنڈا دل پرسوز ہو، پہلو ہو ذرا گرم
پانی کو بنا دیتی ہے الفت کی ہوا آگ
آنسو مِری آنکھوں سے نکلتے ہیں بلا گرم
کیونکر کفِ نازک کو بنا دیتی ہے شعلہ
مشہور ہے رکھتی نہیں تاثیر حِنا گرم
تسلیمؔ جگر سوختۂ عشق ہوں اس کا
جس ماہ کا بستر شبِ اسریٰ میں رہا گرم

تسلیم لکھنوی

No comments:

Post a Comment