Sunday 20 September 2015

بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں

بے کیف دل ہے اور جئے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پئے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم، زکوٰۃ دیئے جا رہا ہوں میں
مجبورئ کمالِ محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول، جئے جا رہا ہوں میں
وہ دل کہاں اب کہ جسے پیار کیجئے
مجبوریاں ہیں، ساتھ دیئے جا رہا ہوں میں
رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جئے جا رہا ہوں میں
پہلے شراب زیست تھی، اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے، پئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی​

No comments:

Post a Comment