سجدوں کی رسمِ کہنہ کو ہوش گنوا کے بھول جا
سنگِ درِ حبیب پر سر کو جھکا کے بھول جا
عشق کو برقرار رکھ، دل کو لگا کے بھول جا
اس سے بھی مطمئن نہ ہو اس کو بھی پا کے بھول جا
دل سے تڑپ جدا نہ کر، ساز کو بے صدا نہ کر
درد جو ہو فغاں طلب، ہونٹ ہلا کے بھول جا
درد اٹھے، اٹھا کرے، چوٹ لگے، لگا کرے
کچھ بھی ہو تُو بنامِ دوست ہنس کے ہنسا کے بھول جا
اس کے ستم کی داستاں آنے نہ پائے تا زباں
دل ہو اگر بہت تپاں، خود کو سنا کے بھول جا
جام بہ دست و مے بہ جام، یونہی گزار صبح و شام
زیست کی تلخئ مدام، پی کے پلا کے بھول جا
منزلِ عشق سے گزر، بے خود و مست و بے خبر
چوٹ لگے تو اُف نہ کر، دل کو دبا کے بھول جا
گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہ کر کبھی خمارؔ
اور جو یاد آ ہی جائے، اشک بہا کے بھول جا
سنگِ درِ حبیب پر سر کو جھکا کے بھول جا
عشق کو برقرار رکھ، دل کو لگا کے بھول جا
اس سے بھی مطمئن نہ ہو اس کو بھی پا کے بھول جا
دل سے تڑپ جدا نہ کر، ساز کو بے صدا نہ کر
درد جو ہو فغاں طلب، ہونٹ ہلا کے بھول جا
درد اٹھے، اٹھا کرے، چوٹ لگے، لگا کرے
کچھ بھی ہو تُو بنامِ دوست ہنس کے ہنسا کے بھول جا
اس کے ستم کی داستاں آنے نہ پائے تا زباں
دل ہو اگر بہت تپاں، خود کو سنا کے بھول جا
جام بہ دست و مے بہ جام، یونہی گزار صبح و شام
زیست کی تلخئ مدام، پی کے پلا کے بھول جا
منزلِ عشق سے گزر، بے خود و مست و بے خبر
چوٹ لگے تو اُف نہ کر، دل کو دبا کے بھول جا
گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہ کر کبھی خمارؔ
اور جو یاد آ ہی جائے، اشک بہا کے بھول جا
خمار بارہ بنکوی
No comments:
Post a Comment