Monday 21 September 2015

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا
بہروپیئے لوٹ آئیں گے کیا
تلوار کی فصل اُگ رہی ہے
گندم کی جگہ پکائیں گے کیا
کاندھا ہی نہیں بدلنے دیتے
ہم گور میں ساتھ جائیں گے کیا
بھڑکا تو رہے ہیں شیخ صاحب
اس آگ میں گھر جلائیں گے کیا
جو ٹھنڈے لوہے کو کُوٹتے ہیں
تھک کر نہیں بیٹھ جائیں گے کیا
اب رات بھی سرد ہو رہی ہے
ہم اوڑھیں گے کیا، بچھائیں گے کیا

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment