Saturday 19 September 2015

جیون جیوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے چھوڑ بہانے

جیون جیوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے، چھوڑ بہانے
تن من دھن کی بھینٹ چڑھا دے کیوں سپنوں کے تانے بانے
آئے کون تجھے بہلانے، پہنچے کون تجھے سمجھانے
پھر پایا ہے پریم سدھا نے، الجھایا ہے پریم کتھا نے
اک گھمسان کا رن ہے دنیا، جاگ سپاہی
اٹھ کر اک دو ہاتھ دکھا دے، دشمن بھی جوہر پہچانے
آنکھیں کھول کر دیکھ جگت کو رنگ رنگ کی نیاری باتیں
ایک ہی چاند مگر آتا ہے تیری راتوں کو چمکانے
نا امیدی کے آکاش پہ چمکا ہے آشا کا ستارہ
مندر میں اک دیوداسی سج کر آئی ناچ دکھانے
ساغر الٹے، مینا ٹوٹی، مے خواروں کی سنگت چھوٹی
ڈھونڈنا اب بے کار ہے تیرا خالی ہیں سارے مے خانے
اس کے دامن میں سو لہریں، آئیں جھکولے، جائیں جھکولے
ہاں کہہ کر پھر جائیں پل میں، کوئی مانے، کوئی نہ مانے
دیکھ کہ ندی اب گدلی ہے، جاگ کہ دنیا ہی بدلی ہے
موج کی راہ سے ناؤ ہٹا لے، آئے ہیں تیرے محل کو ڈھانے
پریم کا ساتھ ہے دکھ کا دارو کیسا سکھ ہو پاس نہیں تو
آنے لگی گیسو کی خوشبو، پیتا ہوں رس کے پیمانے
مانا دکھ میں کھویا ہوا ہوں، تم سمجھے ہو سویا ہوا ہوں
دھرتی کو آکاش بنا دوں، آئے ہو تم کس کو جگانے

میرا جی

No comments:

Post a Comment