درد کی راہیں نہیں آساں، ذرا آہستہ چل
اے سبک رو، اے حریف جاں! ذرا آہستہ چل
منزلوں پر قُرب کا نشہ ہَوا ہو جائے گا
ہمسفر وہ ہے تو اے ناداں! ذرا آہستہ چل
نامرادی کی تھکن سے جسم پتھر ہو گیا
جام سے لب تک ہزاروں لغزشیں ہیں خوش نہ ہو
اب بھی محرومی کا ہے امکاں، ذرا آہستہ چل
ہر تھکا ہارا مسافر ریت کی دیوار ہے
اے ہوائے منزلِ جاناں! ذرا آہستہ چل
اس نگر میں زلف کا سایہ، نہ دامن کی ہوا
اے غریب شہرِ ناپرساں! ذرا آہستہ چل
آبلہ پا تجھ کو کس حسرت سے تکتے ہیں فرازؔ
کچھ تو ظالم! پاسِ ہمراہاں، ذرا آہستہ چل
احمد فراز
No comments:
Post a Comment