Friday 18 September 2015

سویا تھا یا جاگ رہا تھا ہجر کی رات

سویا تھا، یا جاگ رہا تھا ہجر کی رات
آنکھوں پر محسوس کیے ہیں اس کے ہاتھ
اس کو دیکھنا، دیکھتے رہنا کافی تھا
لوٹ آیا ہوں دل میں لے کر، دل کی بات
کیسے اب میں اوروں کو بے درد کہوں
میں بھی تھوڑی دور گیا تھا اس کے ساتھ
بہت زمانوں بعد کوئی واپس آیا
لے کر بھولی بسری یادوں کی سوغات
محوِ تکلّم دنیا بھر کے لوگوں سے
لیکن آنکھ میں وہ ہے، دل میں اس کی بات
شہرِ محبت کب سے خالی خالی ہے
ہم بھی فرازؔ یہاں ہیں شاید رات کی رات

احمد فراز

No comments:

Post a Comment