Friday 18 September 2015

کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں

کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں
جو دشت والے تھے وہ بھی اٹھ آئے شہروں میں
ہماری سادہ دلی دیکھیے کہ ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے دیس کی باتیں پرائے شہروں میں
کچھ اس طرح سے ہر اک بام و در کو دیکھتے ہیں
زمانے بعد کوئی جیسے آئے شہروں میں
سنا ہے جب بھی لٹی ہے بہارِ ویرانہ
تو چند اور چمن مسکرائے شہروں میں
قدم قدم پہ ہوئے تلخ تجربے، پھر بھی
ہمیں حیات کے غم کھینچ لائے شہروں میں
ہَوا نہ دو کہ یہ جنگل کی آگ ہے یارو
عجب نہیں ہے اگر پھیل جائے شہروں میں
فرازؔ! ہم وہ غزالانِ دشت و صحرا ہیں
اسیر کر کے جنہیں لوگ لائے شہروں میں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment