Wednesday 20 January 2016

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
اب تپِ ہجر۔۔۔ توقع سے بھی کم رہتا ہے
کبھی شعلے سے لپکتے تھے مِرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے
کیا خدا جانے مِرے دل کو ہوا تیرے بعد
نہ خوشی اس میں ٹھہرتی ہے نہ غم رہتا ہے
رشتۂ تارِ تمنا ۔۔۔ نہیں ٹوٹا اب تک
اب بھی آنکھوں میں تِری زلف کا خم رہتا ہے
چھوڑ جاتی ہے ہر اک رُت کوئی خوشبو کوئی رنگ
نہ ستم رہتا ہے باقی ۔۔۔۔ نہ کرم رہتا ہے

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment