چھٹ گیا ابر، شفق کھل گئی، تارے نکلے
بند کمروں سے تِرے درد کے مارے نکلے
شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو
تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے
تُو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونٹوں مِری آنکھوں سے نہ بدلی دنیا
پھر وہی پھول کھلے، پھر وہی تارے نکلے
رہ گئی لاج مِری عرضِ وفا کی مشتاقؔ
خامشی سے تِری کیا کیا نہ اشارے نکلے
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment