Wednesday, 20 January 2016

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہوکر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بِیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
پھر بدلی کی یورش ہو گی پھر تارا چھپ جائے گا
اندھیارے کے گھور نگر میں ایک کرن آباد ہوئی
کس کو خبر ہے پہلا جھونکا کتنے پھول کھلائے گا
پھر اک لمحہ آن رکا ہے وقت کے سوئے صحرا میں
پل بھر اپنی چھب دکھلا کر لمحوں میں مل جائے گا

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment