بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہوکر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بِیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
اندھیارے کے گھور نگر میں ایک کرن آباد ہوئی
کس کو خبر ہے پہلا جھونکا کتنے پھول کھلائے گا
پھر اک لمحہ آن رکا ہے وقت کے سوئے صحرا میں
پل بھر اپنی چھب دکھلا کر لمحوں میں مل جائے گا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment