Wednesday 20 January 2016

بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں

بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں
اڑنے کے لیے آج بھی پر تول رہا ہوں
بے باک سخنور ہوں زباں کھول رہا ہوں
کچھ بولنا مشکل ہے، مگر بول رہا ہوں
تجھ سے مِرے غمخوار نہ کہنا پڑے مجھ کو
میں اشک ہوں مٹی میں کہیں رول رہا ہوں
دیکھا نہ اسی نے مجھے جس کیلیے اک عمر
ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے کشکول رہا ہوں
میں تجھ سے مِری دشمن جاں دوستی کر کے
خود اپنے لیے شہد میں سَم گھول رہا ہوں
میں کون ہوں کیا ہوں کہ تجسس میں اجل سے
ہر ایک برس ۔۔۔ ایک گرہ کھول رہا ہوں
کیا چیز  پلا دی ہے کہ پھر بھی سرِ محفل
ساقی کی طرف ہاتھ کیے ۔۔ ڈول رہا ہوں
منصور ہوں ۔۔ جرأتِ اظہار ہے مجھ میں
میں دار پہ بھی  دیکھیے سچ بول رہا ہوں
تم قدر مِری مصر کے بازار سے پوچھو
میں یوسفِ کنعاں ہوں ۔۔ انمول رہا ہوں

اسلم راہی

No comments:

Post a Comment