بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں
اڑنے کے لیے آج بھی پر تول رہا ہوں
بے باک سخنور ہوں زباں کھول رہا ہوں
کچھ بولنا مشکل ہے، مگر بول رہا ہوں
تجھ سے مِرے غمخوار نہ کہنا پڑے مجھ کو
دیکھا نہ اسی نے مجھے جس کیلیے اک عمر
ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے کشکول رہا ہوں
میں تجھ سے مِری دشمن جاں دوستی کر کے
خود اپنے لیے شہد میں سَم گھول رہا ہوں
میں کون ہوں کیا ہوں کہ تجسس میں اجل سے
ہر ایک برس ۔۔۔ ایک گرہ کھول رہا ہوں
کیا چیز پلا دی ہے کہ پھر بھی سرِ محفل
ساقی کی طرف ہاتھ کیے ۔۔ ڈول رہا ہوں
منصور ہوں ۔۔ جرأتِ اظہار ہے مجھ میں
میں دار پہ بھی دیکھیے سچ بول رہا ہوں
تم قدر مِری مصر کے بازار سے پوچھو
میں یوسفِ کنعاں ہوں ۔۔ انمول رہا ہوں
اسلم راہی
No comments:
Post a Comment