خون تھوکا شبِ فرقت میں بسر ہونے تک
کیا بتاؤں کہ جو بِیتی ہے سحر ہونے تک
کہکشاں کی ہیں تِری یاد میں آنکھیں ہر شب
اور کیا چاہیۓ ۔۔ اب خون جگر ہونے تک
کوئی مہتاب جو چمکا بھی تو بس یوں چمکا
اس کہانی کے خدا جانے کہاں ہیں کردار
ہم نے لکھی تھی گھروندے سے جو گھر ہونے تک
دل شکستہ ہوں کے مشکل ہے زمینِ غالبؔ
جان نکل جائے گی ۔ مصرعِ طرح ہونے تک
اسلم راہی
No comments:
Post a Comment