Wednesday 20 January 2016

دل میں طوفان ہے اور آنکھ طغیانی ہے

دل میں طوفان ہے اور آنکھ طغیانی ہے
زندگی! ہم نے مگر ہار نہیں مانی ہے
غمزدہ وہ بھی ہیں دشوار ہے مرنا جن کو
وہ بھی شاکی ہیں جنہیں جینے کی آسانی ہے
دور تک ریت کا کانپتا ہوا صحرا تھا جہاں
پیاس کی کس کا کرشمہ ہے، وہاں پانی ہے
جستجو تیرے علاوہ بھی کسی کی ہے ہمیں
جیسے، دنیا میں کہیں کوئی تِرا ثانی ہے
اس نتیجے پہ پہونچتے ہیں سبھی آخر میں
حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں، حیرانی ہے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment