Saturday, 16 January 2016

میرا جانا نہ ہوا آپ کا آنا نہ ہوا

میرا جانا نہ ہوا،۔ آپ کا آنا نہ ہوا
بات اتنی تھی مگر اس پہ یہ افسانہ ہوا
جان دینے میں مجھے عذر نہیں ہے لیکن
ہاں! اگر پھر بھی مِرے غم کا مداوا نہ ہوا
گِر گیا ہو گا لہو آنکھ سے انجانے میں
ورنہ کب ہم کو تِرا درد گوارا نہ ہوا
زخم، دل، زخمِ جگر، زخمِ الم، خونِ امید
دامن اپنا، کبھی شرمندۂ گِریہ نہ ہوا
تھی خبر چاروں طرف تیری مسیحائی کی
کیوں تِرا غم مِرے حق میں ہی میسحا نہ ہوا
عشق میں روز نیا رنج ہو۔۔ ایسا تو ہُوا
اور مشکل کوئی حل ہو کبھی ایسا نہ ہوا
تیرا بننے کی کشاکش میں ہوئی شام حیات
غم تو یہ ہے کہ اسی غم میں خود اپنا نہ ہوا
سرورِؔ سوختہ ساماں کی شکایت کیسی
اس کو کب ہوش ہے، دیوانہ تو دیوانہ ہوا​

سرور عالم راز

No comments:

Post a Comment