Saturday, 16 January 2016

نے نامہ و پیغام نے کوئی خبر آوے

نے نامہ و پیغام،۔ نے کوئی خبر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
یوں یاد تِری چھپ کے مِرے دل میں در آوے
جوں صبح کا بھولا کوئی شام اپنے گھر آوے
یہ موڑ ہے، وہ پیچ ہے، یہ اونچ ہے، وہ نیچ
اک کھٹکا نیا روز سر رہگزر آوے
دن ساز سے محروم ہے، شب سوز سے خالی
آہوں میں بھلا آوے تو کیوں کر اثر آوے
اس طرح رہ و رسم رہی زیست سے اپنی
جوں ساتھ مسافر کے غبارِ سفر آوے
اللہ رے، یہ خستہ مزاجی، یہ طبیعت
یارو! ہمیں اب اپنے ہی سائے سے ڈر آوے
اک عمر گئی ۔۔ جینے کا پر ڈھنگ نہ آیا
بے موت ہی مر جانے کا یارب ہنر آوے
منت کشِ اربابِ کرم میں رہوں کب تک
الزام محبت ہی سہی، کچھ تو سر آوے
سرورؔ ہوئے یوں خواب محبت کے فسانے
مشکل ہی سے دیوانہ تجھ ایسا نظر آوے

سرور عالم راز

No comments:

Post a Comment