Sunday, 17 January 2016

اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے

اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے
کرو گے الفت تو روز جینا یہ روز مرنا بھی سیکھ لو گے 
کوئی ارادہ، ابھی تخیل میں پھول بن کے مہک رہا ہے 
جب آسماں نے مزاج بدلا تو پھر بکھرنا بھی سیکھ لو گے 
محبتوں کے یہ سارے رستے ہی سہل لگتے ہیں ابتدأ میں 
تم آج چل تو رہے ہو لیکن کہیں ٹھہرنا بھی سیکھ لو گے 
کسی خلش سے فریب کھا کر تم اپنے جیون کے راستوں سے 
نظر بدلتی ہوئی رُتوں کی طرح گزرنا بھی سیکھ لو گے 
خمارِ قربت کے خود فراموش موسموں میں یونہی اچانک 
تم اپنی ہستی کی جان پہچان سے مُکرنا بھی سیکھ لو گے 
یہ وصل کا بے ثبات موسم جدائیوں کو صدائیں دے گا 
حسنؔ ذرا دیر زندہ رہنے کے بعد مرنا بھی سیکھ لو گے

علی حسن شیرازی

No comments:

Post a Comment