دنیا میں سراغِ رہِ دنیا نہیں ملتا
دریا میں اتر جائیں تو دریا نہیں ملتا
باقی تو مکمل ہے تمنا کی عمارت
اک گزرے ہوئے وقت کا شیشہ نہیں ملتا
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
جو دل میں سمائے تھے وہ اب شاملِ دل ہیں
اس آئینے میں ۔۔ عکس کسی کا نہیں ملتا
تُو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
دل میں تو دھڑکنے کی صدا بھی نہیں مشتاقؔ
رستے میں ہے وہ بھیڑ کہ رستہ نہیں ملتا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment