Monday, 18 January 2016

قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے

قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے
ہر شاخ جھک کے بن گئی تلوار دیکھیے
ہیں شام سے کچھ اور ہی آثار دیکھیے
کیا صبح تک ہو حالتِ بیمار دیکھیے
بجلی سے لڑ گئی نگہِ یار دیکھیے
وہ آسماں پہ چل گئی تلوار دیکھیے
نکلے ہیں مدتوں میں قفس سے اسیرِ غم
ملتی ہے یا نہیں رہِ گلزار۔۔ دیکھیے
کب جاگتی ہے دیکھیے قسمت شبِ وصال
ہوتے ہیں کب وہ خواب سے بیدار دیکھیے
انکار اب جو حشر میں فرما رہے ہیں آپ
اب بات بڑھنے والی ہے سرکار دیکھیے
منصور کا معاملہ آگے بڑھائے کون
کہیے جو حق کی بات تو پھر دار دیکھیے
کہتے ہیں بے وفا تو قمرؔ بے وفا سہی
اچھا ۔۔ کوئی اب اور وفادار دیکھیے

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment