Monday, 18 January 2016

بوڑھا پنواڑی اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری

بوڑھا پنواڑی

بوڑھا پنواڑی، اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری
آنکھوں میں جیون کی بجھتی اگنی کی چنگاری
نام کی اک ہَٹی کے اندر بوسید الماری
آگے پیتل کے تختے پر اس کی دنیا ساری
پان، کتھا، سگرٹ، تمباکو، چونا، لونگ، سپاری
عمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری
چونا گھولتے، چھالیا کاٹتے، کتھ پگھلاتے گزری
سگریٹ کی خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری
کتنے شرابی مشتریوں سے نین ملاتے گزری
چند کسیلے پتوں کی گتھی سلجھاتے گزری
کون اس گتھی کو سلجھائے، دنیا ایک پہیلی
دو دن ایک پھٹی چادر میں دکھ کی آندھی جھیلی
دو کڑوی سانسیں لیں، دو چلموں کی راکھ انڈیلی
اور پھر اس کے بعد نہ پوچھو، کھیل جو ہونی کھیلی
پنواڑی کی ارتھی اُٹھی، بابا اللہ بیلی
صبح بھجن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے
ایک چتا کی راکھ ہوا کے جھونکوں میں کھو جائے
شام کو اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے
جھن جھن ، ٹھن ٹھن چونے والی کٹوری بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر جل جائے، دوسرا آئے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment