Tuesday, 1 March 2016

ایک آسیبی رات؛ کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئی

ایک آسیبی رات

کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئی
اور باہر کے آسمان پر کالا بادل کڑکا
تو میرا دل ایک نرالے اندیشے سے دھڑکا
لالٹین کو ہاتھ میں لے کر جب میں باہر نکلا
دروازے کے پاس ہی اک آسیب نے مجھ کو ٹوکا
آندھی اور طوفان نے آگے بڑھ کے رستہ روکا
تیز ہوا نے رو کے کہا “تم کہاں چلے ہو بھائی
یہ تو ایسی رات ہے جس میں زہر کی موج چھپی ہے
”جی کو ڈرانے والی آوازوں کی فوج چھپی ہے
میں نے پاگل پن کی دھن میں مڑ کر بھی نہیں دیکھا
دل نے تو دیکھے ہیں ایسے لاکھوں کٹھن زمانے
وہ کیسے ان بھوتوں کی باتوں کو سچا مانے
جونہی اچانک میری نظر کے سامنے بجلی لہرائی
میں نے جیسے خواب میں دیکھا اک خونیں نظارہ
جس نے میرے دل میں گہرے درد کا بھالا مارا
خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی اک ننگی مہ پارہ
پھر گھائل چیخوں نے مل کر دہشت سی پھیلائی
رات کے عفریتوں کا لشکر مجھے ڈرانے آیا
دیکھ نہ سکنے والی شکلوں نے جی کو دہلایا
ہیبت ناک چڑیلوں نے ہنس ہنس کر تیر چلاۓ
سائیں سائیں کرتی ہوا نے خوف کے محل بناۓ
سارے تن کا زور لگا کر میں نے اسے بلایا
“لیلیٰ! لیلیٰ!“ کہاں ہو تم، اب جلدی گھر آ جاؤ”
“لیلیٰ! لیلیٰ! کہاں ہو تم”
“لیلیٰ! لیلیٰ! کہاں ہو تم”
عفریتوں نے مِری صدا کو اسی طرح دہرایا

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment