موسمِ گل میں عجب رنگ ہے مے خانے کا
شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
خوب انصاف تِری انجمنِ ناز میں ہے
شمع کا رنگ جمے، خون ہو پروانے کا
میں سمجھتا ہوں تِری عشوہ گری اے ساقی
رات بھر آتشِ حسرت سے جلا کرتی ہے
شمع پر صبر پڑا ہے کسی پروانے کا
اٹھ گئے آپ جو پہلو سے قیامت آئی
مل گیا درد کو پہلو مِرے تڑپانے کا
جان دے دے نہ کرے آہ، بہت مشکل ہے
عشق کرنے کو جگر چاہیے پروانے کا
تُو نے صورت نہ دکھائی تو یہ صورت ہو گی
لوگ دیکھیں گے تماشا تِرے دیوانے کا
آتشِ عشق ہے کیا چیز یہ پوچھو ہم سے
نام روشن ہے اسی آگ سے پروانے کا
صحبتِ پیرِ مغاں میں یہ کھلا راز جلیلؔ
خلد کہتے ہیں جسے نام ہے مے خانے کا
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment