ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلُو ٹوٹ گیا
تجھ سے پر ساقئ کم ظرف! سبُو ٹوٹ گیا
شیخ صاحب کی نمازِ سحری کو ہے سلام
حسنِ نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا
پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی
دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں
پیرہن کا مِرے ہر تارِ رفُو ٹوٹ گیا
شمع و پروانہ میں تھا رشتۂ الفت جو بہم
سو وہ اے صبح! تِرا دیکھ کے رُو ٹوٹ گیا
کشورِ مصر میں قفلِ درِ چشمِ یعقوبؑ
آئی پیراہنِ یوسفؑ کی جو بُو، ٹوٹ گیا
دست کاری تِری معلوم ہوئی اے فصاد
نیشتر رگ میں تو لیتے ہیں لہُو ٹوٹ گیا
وائے اے شیشۂ دل! سینے میں مانندِ حباب
ٹھیس سے اس نفسِ سرد کی تُو ٹوٹ گیا
کاخِ دنیا جو ہے بازیچۂ طفلاں ہے نصیرؔ
کہ کبھو گھر یہ بنا،۔۔ اور کبھو ٹوٹ گیا
شاہ نصیر دہلوی
No comments:
Post a Comment