Wednesday, 9 March 2016

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

نگاہ برق نہیں،۔۔ چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جوابِ خشک سنوں ساقیا! یہ تاب نہیں
جواب دے کہ نہ دے یہ نہ کہہ شراب نہیں
ہمیں تو دور سے آنکھیں دکھائی جاتی ہیں
نقاب لپٹی ہے اس پر کوئی عتاب نہیں
چمک دمک رخِ روشن کی ہے شباب کے ہاتھ
یہ دوپہر ہے تو ڈھلنے کا آفتاب نہیں
پیے بغیر چڑھی رہتی ہے حسینوں کو
وہاں شباب ہے کیا کم اگر شراب نہیں
وہ اپنے عکس کو آواز دے کے کہتے ہیں
تِرا جواب تو میں ہوں، مِرا جواب نہیں
گنہ گنہ نہ رہا،۔۔۔ اتنی بادہ نوشی کی
اب ایک شغل ہے کچھ لذتِ شراب نہیں
اسے بھی آپ کے ہونٹوں کا پڑ گیا چسکا
ہزار چھوڑیئے، چھٹنے کی اب شراب نہیں
بتوں سے پردہ اٹھانے کی بحث ہے بے کار
کھلی دلیل ہے، کعبہ بھی بے نقاب نہیں
جلیلۤ ختم نہ ہو دورِ جامِ مینائی
کہ اس شراب سے بڑھ کر کوئی شراب نہیں

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment