تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے
طنز کرتے ہیں وہ حالات پہ دیوانوں کے
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے
کھل گئے بھید جو رندوں پہ جہاں بانوں کے
جمگھٹے بچ کے گزرتے ہوئے انسانوں کے
قہقہے اور بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے
موسمِ گل سے خزاں نے وہ سیاست کھیلی
گلستانوں کے ہوئے ہم،۔ نہ بیابانوں کے
میں تو سمجھا تھا شگوفوں کو دلِ صد پارہ
جب کیا غور تو ٹکڑے تھے گریبانوں کے
وہی اخلاق کو، ایماں کو بناتے ہیں سپر
وہ جو اخلاق کے قائل ہیں نہ ایمانوں کے
شرطِ اول ہے مسلمان کا انساں ہونا
وہ مسلمان کے دشمن ہیں کہ انسانوں کے
جن کو آہوں کی طرح ضبط کِیا جاتا ہے
ترجماں اشک ہی بنتے ہیں ان ارمانوں کے
جس توقع پہ خوشامد میں لگے رہتے ہو
اختیارات سے باہر ہیں نگہبانوں کے
کہہ رہے ہو جسے تم ابرِ بہاری اے شادؔ
میں سمجھتا ہوں کہ آثار ہیں طوفانوں کے
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment