Thursday, 10 March 2016

تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے

تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے 
طنز کرتے ہیں وہ حالات پہ دیوانوں کے 
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے 
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے 
کھل گئے بھید جو رندوں پہ جہاں بانوں کے 
ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے 
جمگھٹے بچ کے گزرتے ہوئے انسانوں کے 
قہقہے اور بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے 
موسمِ گل سے خزاں نے وہ سیاست کھیلی 
گلستانوں کے ہوئے ہم،۔ نہ بیابانوں کے 
میں تو سمجھا تھا شگوفوں کو دلِ صد پارہ 
جب کیا غور تو ٹکڑے تھے گریبانوں کے 
وہی اخلاق کو، ایماں کو بناتے ہیں سپر 
وہ جو اخلاق کے قائل ہیں نہ ایمانوں کے 
شرطِ اول ہے مسلمان کا انساں ہونا 
وہ مسلمان کے دشمن ہیں کہ انسانوں کے 
جن کو آہوں کی طرح ضبط کِیا جاتا ہے 
ترجماں اشک ہی بنتے ہیں ان ارمانوں کے 
جس توقع پہ خوشامد میں لگے رہتے ہو 
اختیارات سے باہر ہیں نگہبانوں کے 
کہہ رہے ہو جسے تم ابرِ بہاری اے شادؔ 
میں سمجھتا ہوں کہ آثار ہیں طوفانوں کے

شاد عارفی

No comments:

Post a Comment