Tuesday 8 March 2016

تم لگا دو عاشق دل گیر پر

تم لگا دو عاشقِ دل گیر پر
ناز ہو جس تیغ پر جس تیر پر
چارہ گر مرتے ہیں کیوں تدبیر پر
چھوڑ دیں مجھ کو مِری تقدیر پر
اس نگاہِ امتحاں کو دیکھنا
ہے کبھی مجھ پر کبھی شمشیر پر
شرم مجھ سے اور وہ بھی وصل میں
تم تو نادم ہو کسی تقصیر پر
دوسرے کو دیکھ سکتے ہی نہیں
آتے ہیں منہ اپنی بھی تصویر پر
یوں تو سو پہلو بٹھائے وصل کے
دل نہیں جمتا کسی تدبیر پر
بھیج کر خط پھر مُکر جانا یہ کیا
دیکھیے آئے ہیں اس تحریر پر
داورِ محشر کے آگے تو سہی 
لوٹ جاؤ تم مِری تقریر پر
گریۂ شب سے توقع تھی بہت
اوس الٹی پڑ گئی تاثیر پر
شوخئ الفاظ کچھ لائے گی رنگ
آنکھ پڑتی ہے مِری تحریر پر
داغؔ سچ ہے جو خدا چاہے کرے
آدمی کا بس نہیں تقدیر پر

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment