مِری لحد پہ کوئی سوگوار تک نہ رہا
ہوا چلی کہ چراغِ مزار تک نہ رہا
ہوئے بھی حضرتِ ناصح تو کب کرم فرما
جب اپنے دل پہ ہمیں اختیار تک نہ رہا
جنوں میں ہم نے جہاں کی ہے جادہ فرسائی
ہمیں فلک نے کیا اس زمیں پہ یوں برباد
کہ اپنی خاک تو کیسی،۔ غبار تک نہ رہا
اسی کے سامنے سرگوشیاں ہیں غیروں سے
صفیؔ کا اپنے تمہیں اعتبار تک نہ رہا
صفی لکھنوی
No comments:
Post a Comment