Tuesday 8 March 2016

یہ عشق کب دل خانہ خراب سے چھوٹا

یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھوٹا
دل اس کے گیسوئے پُرپیچ و تاب سے چھوٹا
بڑی بلا سے یہ نکلا، عذاب سے چھوٹا
نگاہِ مست نے سرشار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھٹی میں شراب سے چھوٹا
وہ تانک جھانک کا اول سے تھا مجھ لپکا
کہ آج تک بھی نہ عہدِ شباب سے چھوٹا
شمار میں نے کیا جب تِری جفاؤں کا
عدو نہ ایک بھی میرے حساب سے چھوٹا
مٹی جھلک نہ ذرا خونِ دل کی گریہ سے
یہ رنگ کب مِری چشمِ پُر آب سے چھوٹا
زہے نصیب وہ عاشق نصیب والا ہے
جو تیرے قہر سے تیرے عتاب سے چھوٹا
عدو کی قبر پہ کیوں فاتحہ پڑھی تم نے
غضب ہوا کہ وہ کافر عذاب سے چھوٹا
ہمیشہ ساتھ رہا ہے اس آب و آتش کا
کبھی نہ برق کا دامن سحاب سے چھوٹا
مجھے ہو قسمتِ برگشتہ کی شکایت کیا
زمانہ کون سے دن انقلاب سے چھوٹا
مجھے یہ ضد کہ نہ لکھوں گا اور کوئ خط
وہ دل میں شاد کہ فکرِ جواب سے چھوٹا
رہا نظارہ کسی چہرۂ کتابی کا
مطالعہ نہ مِرا اس کتاب سے چھوٹا
نہ کیوں ہو رشک مجھے ایسے ملنے والوں پر
نہ رنگِ گل سے نہ نشہ شراب سے چھوٹا
ہمیں نے وصل میں مجبور پیش دستی کی
جب ان کا ہاتھ نہ بندِ نقاب سے چھوٹا
نصیب میں ہو جو چکر تو کوئی چھٹتا ہے
یہ رات دن نہ مہ و آفتاب سے چھوٹا
اگرچہ سینکڑوں بے ڈھب سوال میں نے کیے
نہ مدعا مِرے حاضر جواب سے چھوٹا
کھلی جب آنکھ نہ دیکھا جمال یوسف کو
مگر خیالِ زلیخا نہ خواب سے چھوٹا
مِرے حساب سے دن زندگی کے تھوڑے ہیں
حساب کر کے غمِ بے حساب سے چھوٹا
یہ جی میں ہے کہ کروں سیرِ بتکدہ جا کر
خدا کا گھر دلِ خانہ خراب سے چھوٹا
قرار دل کو نہ آیا تو مجھ کو موت آئی
چھٹا وہ صبر سے میں اضطراب سے چھوٹا
بیاں ان کے ہوں اوصاف داغؔ سے  کیا کیا
کوئی نہ وصف شہِ بُوتراب سے چھوٹا

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment