Tuesday, 1 March 2016

آدمی بھولی باتیں یاد نہ آئیں

آدمی

بھولی باتیں یاد نہ آئیں
کیا کیا کوشش کرتا ہے
کون ہے وہ بس اسی سوچ میں
سائے سے بھی ڈرتا ہے
جیسے سکھ کے طوفانوں میں
دکھ کا ریلا پھرتا ہے
ساتھ اپنے جمگھٹا لگا کر
آپ اکیلا پھرتا ہے
گزرگاہ پر تماشا
کھلی سڑک ویران پڑی تھی
بہت عجب تھی شام
اونچا قد اور چال نرالی
نظریں خوں آشام
سارے بدن پر مچا ہوا تھا
رنگوں کا کہرام
لال ہونٹ یوں دہک رہے تھے
جیسے لہو کا جام
ایسا حسن تھا اس لڑکی میں
ٹھٹھک گئے سب لوگ
کیسے خوش خوش چلے تھے گھر کو
لگ گیا کیسا روگ

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment