زخمِ دل کا وہ نظارا ہے کہ جی جانے ہے
اتنا احسان تمہارا ہے کہ جی جانے ہے
دیکھنا پھر کہیں زلفیں نہ پریشاں ہو جائیں
اتنا مشکل سے سنوارا ہے کہ جی جانے ہے
یہ حسیں دور، جسے موسمِ گل کہتے ہیں
مہرباں حال پہ ہیں آپ ہمارے جب سے
تب سے وہ حال ہمارا ہے کہ جی جانے ہے
گرچہ جی جان کا دشمن ہے وہ ظالم پھر بھی
ایسا جی جان سے پیارا ہے کہ جی جانے ہے
کبھی گزرے ہیں چمن سے تو گلوں نے عاجزؔ
اس محبت سے پکارا ہے کہ جی جانے ہے
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment