اپنی جانب کو جسے تُو نے لبھایا ہو گا
کوئی اور اس کو سوا تیرے نہ بھایا ہو گا
در تلک جس کو رسائی تِرے ہو گی اس نے
سنگِ در چوم کے آنکھوں سے لگایا ہو گا
دے گا وہ حرص و ہوس کو نہ کبھی دل میں جگہ
منہ تھا کیا ماہ کا کوٹھے پہ تِرے منہ چڑھتا
مہرِ پُر نور نے بھی منہ نہ دکھایا ہو گا
دردِ سر تم جو بتاتے ہو نصیبِ اعدا
دردِ دل آپ کو عاشق نے سنایا ہو گا
درپۓ قتل نہیں میرے وہ قاتل اے دل
تیغِ ابرو کو جو کھینچا تو ڈرایا ہو گا
بے خطا تو نہیں ہوتے ہیں ظفرؔ وہ برہم
زلف کو ہاتھ کہیں تُو نے لگایا ہو گا
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment