تیر تیرا جس کے سینہ سے گزر کر جائے گا
آپ جائے گا گزر، پر دل میں گھر کر جائے گا
وہ مقامِ عیش ہے دنیا کہ یاں سے جیتے جی
کون جاتا ہے اگر جائے گا مر کر جائے گا
چپکے چپکے نالہ کب سینے سے جائے گا نکل
تیرا کوچہ وہ گلستاں کہ جو آئے گا یاں
اشکِ خوں سے اپنے گل، دامن میں بھر کر جائے گا
امتحاں کرتی محبت کا نہ پروانے سے شمع
گر خبر ہوتی کہ خیرات اس قدر کر جائے گا
تیری ہستی پیش خیمہ ہے یہ تیرا اے حباب
اب تو کوئ دم میں یاں سے تو سفر کر جائے گا
کر گیا گر اک تبسم باغ میں آ کر وہ گل
دیکھنا غنچہ کا سو ٹکڑے جگر کر جائے گا
ہے زیادہ دم بدم بحر محبت کا چڑھاؤ
پار کیوں کر دیکھیے یہ دل اتر کر جائے گا
جذبۂ دل کھینچ ہی لائے گا اس خود کام کو
کام اپنا ایک دن یہ اے ظفرؔ کر جائے گا
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment