منہ نظر آوے نہ کیونکر آنکھ میں اس یار کا
آنکھ اپنی بن گئی ہے آئینہ دیدار کا
صفحۂ قرآن پر کھینچی ہے اک جدولِ سیاہ
مصحفِ رخ پر وہ سایہ زلف کے ہر تار کا
پاس ابرو کے مرصع کار ٹیکا ہے کہاں
زحمِ دل کو صاف کرتا ہے خیالِ خطِ سبز
چارہ گر مرہم نہ رکھ بے فائدہ زنگار کا
گر مِری مژگانِ تر برسائے موتی ایک بار
نام دھو ڈالے جہاں سے ابر گوہر بار کا
دیکھا جھانکا کہیں وہ مہر وَش شاید کہ ہے
اخترِ صبحِ قیامت روزن اس دیوار کا
محو حیرت کیوں نہ ہو وہ اے ظفرؔ آئینہ دار
دیکھنے والا جو ہو اس آئینہ رخسار کا
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment