Sunday, 13 March 2016

منہ نظر آوے نہ کیوں کر آنکھ میں اس یار کا

منہ نظر آوے نہ کیونکر آنکھ میں اس یار کا
آنکھ اپنی بن گئی ہے آئینہ دیدار کا
صفحۂ قرآن پر کھینچی ہے اک جدولِ سیاہ
مصحفِ رخ پر وہ سایہ زلف کے ہر تار کا
پاس ابرو کے مرصع کار ٹیکا ہے کہاں
ہے میاں قبضہ جڑاؤ یار کی تلوار کا
زحمِ دل کو صاف کرتا ہے خیالِ خطِ سبز
چارہ گر مرہم نہ رکھ بے فائدہ زنگار کا
گر مِری مژگانِ تر برسائے موتی ایک بار
نام دھو ڈالے جہاں سے ابر گوہر بار کا
دیکھا جھانکا کہیں وہ مہر وَش شاید کہ ہے
اخترِ صبحِ قیامت روزن اس دیوار کا
محو حیرت کیوں نہ ہو وہ اے ظفرؔ آئینہ دار
دیکھنے والا جو ہو اس آئینہ رخسار کا​

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment