یار تھا، گلزار تھا، مے تھی، فضا تھی، میں نہ تھا
لائقِ پا بوسِ جاناں کیا حنا تھی، میں نہ تھا
ہاتھ کیوں باندھے مِرے، چھلا اگر چوری ہو گیا
یہ سراپا شوخئ دزدِ حنا تھی، میں نہ تھا
بے خودی میں لے لیا بوسہ، خطا کیجے معاف
ہائے ساقی! یہ ہو ساماں اور عاشق واں نہ ہو
یار تھا، سبزہ تھا، بدلی تھی، ہوا تھی، میں نہ تھا
میں سسکتا رہ گیا،۔ اور مر گئے فرہاد و قیس
کیا انہی دونوں کے حصے میں قضا تھی، میں نہ تھا
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کا حسن و شباب
ہنس کے بولا وہ صنم ، شانِ خدا تھی، میں نہ تھا
اے ظفرؔ! یہ میرے دل پہ داغ کیسا رہ گیا
خا نہ باغِ یار میں خلقِ خدا تھی، میں نہ تھا
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment