زہرِ غم ہنس ہنس کے پینا چاہیے
موت آنے تک تو جینا چاہیے
ایک تنکا ڈوبتے کا آسرا
کون کہتا ہے سفینا چاہیے
حسن کے جلووں سے جی بھرتا نہیں
جب نگاہِ لطفِ ساقی پھر گئی
ترکِ شغلِ جام و مِینا چاہیے
وجدؔ آزادی کے پودے کے لیے
خون سے بڑھ کر پسینا چاہیے
سکندر علی وجد
No comments:
Post a Comment