Saturday, 12 March 2016

پہلو نہ دکھے گا تو گزارا نہیں ہو گا

پہلو نہ دکھے گا تو گزارا نہیں ہو گا
ہم سا بھی کوئی درد کا مارا نہیں ہو گا
ہر شعر ہے تصویر مِرے زخمِ جگر کی
ہاں دیکھ، کہ پھر ایسا نظارا نہیں ہو گا
تُو سب کی سنے ہے کبھی میری بھی غزل سن
پھر ایسا خوش اسلوب دوبارا نہیں ہو گا
جس درد سے ہم تجھ کو دیا کرتے ہیں آواز
 بلبل نے بھی یوں گل کو پکارا نہیں ہو گا
کل ہو گی اگر آج پریشاں نہیں ہو گی
وہ زلف جسے ہم نے سنوارا نہیں ہو گا
شمشیر کبھی وقت کی چل ہی نہیں سکتی
جب تک تِری چتون کا اشارا نہیں ہو گا
جب ترکِ تعلق کا ستم جھیل چکے ہیں
پھر کون سا غم ہے جو گوارا نہیں ہو گا
دنیا میں مِری جان کے دشمن تو بہت ہیں
تم جیسے ہو ایسا کوئی پیارا نہیں ہو گا
ہم کو کوئی امید زمانے سے نہیں ہے
جو تیرا ہوا ہے وہ ہمارا نہیں ہو گا

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment