پہلو نہ دکھے گا تو گزارا نہیں ہو گا
ہم سا بھی کوئی درد کا مارا نہیں ہو گا
ہر شعر ہے تصویر مِرے زخمِ جگر کی
ہاں دیکھ، کہ پھر ایسا نظارا نہیں ہو گا
تُو سب کی سنے ہے کبھی میری بھی غزل سن
جس درد سے ہم تجھ کو دیا کرتے ہیں آواز
بلبل نے بھی یوں گل کو پکارا نہیں ہو گا
کل ہو گی اگر آج پریشاں نہیں ہو گی
وہ زلف جسے ہم نے سنوارا نہیں ہو گا
شمشیر کبھی وقت کی چل ہی نہیں سکتی
جب تک تِری چتون کا اشارا نہیں ہو گا
جب ترکِ تعلق کا ستم جھیل چکے ہیں
پھر کون سا غم ہے جو گوارا نہیں ہو گا
دنیا میں مِری جان کے دشمن تو بہت ہیں
تم جیسے ہو ایسا کوئی پیارا نہیں ہو گا
ہم کو کوئی امید زمانے سے نہیں ہے
جو تیرا ہوا ہے وہ ہمارا نہیں ہو گا
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment