Wednesday, 9 March 2016

آج تک دل کی آرزو ہے وہی

آج تک دل کی آرزُو ہے وہی
پھُول مُرجھا گیا ہے بُو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تُو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزُو ہے وہی
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تُو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمئ ہائے جستجُو ہے وہی
مے کدے کا جلیلؔ رنگ نہ پوچھ
رقص جام و خم و سبُو ہے وہی

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment