آج تک دل کی آرزُو ہے وہی
پھُول مُرجھا گیا ہے بُو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تُو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تُو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمئ ہائے جستجُو ہے وہی
مے کدے کا جلیلؔ رنگ نہ پوچھ
رقص جام و خم و سبُو ہے وہی
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment