چارۂ سوزِ جگر کب قربِ جانانہ ہوا
شمع کے پہلو میں جل کر خاک پروانہ ہوا
ایک قطرہ آبِ نیساں کا صدف کی گود میں
فرضِ حسنِ تربیت سے درِ یک دانہ ہوا
التفاتِ عشق سے بڑھتا رہا القابِ حسن
روح نے بھی تنگ ہو کر ساتھ چھوڑا جسم کا
وقتِ مشکل جو یگانہ تھا، وہ بے گانہ ہوا
کم ہوا آہستہ آہستہ صفیؔ کیفِ حیات
رفتہ رفتہ عمر کا لبریز پیمانہ ہوا
صفی لکھنوی
No comments:
Post a Comment