غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا
نہ خاموش رہنا مِرے ہم صفیرو
کوئ سیکھ لے دل کی بیتابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا
دلیلِ گرانبارئ سنگِ غم سے
صفیؔ ٹوٹ کر دل کا آواز دینا
صفی لکھنوی
No comments:
Post a Comment